Arshi khan

Add To collaction

14-Apr-2022 لیکھنی کی کہانی -منزل عشق قسط 10

منزل عشق قسط 10
کال پر نظر پڑتے ہی وانیہ نے چیخ مار کر وہاں سے بھاگنا چاہا لیکن اگلے ہی پل کال اس کی کمر کے گرد ہاتھ باندھتا اسے اپنی گرفت میں لے چکا تھا۔
"کہاں جان من لگتا ہے راگا نے ٹھیک سے تمہارے پیروں میں بیڑیاں نہیں ڈالیں جو تم نے اتنی بڑی جرات کر لی لیکن فکر مت کرو میرے پاس سے بھاگنا تو دور بلکہ ایسا سوچنے سے بھی پہلے تمہاری روح کانپ جاے گی۔"
اتنا کہہ کر کال نے اس کے گرد لپٹی چادر کو کھینچ کر اس کے وجود سے جدا کیا۔
"نن ۔۔۔۔۔نہیں چھوڑو بابا۔۔۔۔"
وانیہ نے چلاتے ہوئے اس سے دور ہونے کی کوشش کی لیکن کال نے اسکے بالوں کو اپنے مٹھی میں دبوچ کر اسے اپنی جانب کھینچا۔
"چھوڑو مجھے۔۔۔۔بابا۔۔۔۔۔ ہانی۔۔۔۔۔"
وانیا اپنی پوری طاقت لگا کر خود کو چھڑاتے ہوئے چلا رہی تھی لیکن اس کی مدد کرنے والا کوئی بھی نہ تھا۔
"آج میں تجھے بتاؤں گا لڑکی تیری اصلی اوقات کیا ہے ۔۔۔۔"
کال نے اسے اپنے قریب کرتے ہوئے کہا جبکہ وانیا اب سوکھے پتے کی طرح کانپ رہی تھی۔کال کو خود کے قریب ہوتا دیکھ اس نے روتے ہوئے اپنی آنکھیں زور سے میچ لیں۔
لیکن جب اسے کچھ محسوس نہ ہوا تو آنکھیں کھول کر حیرت سے کال کو دیکھنے لگی جو اب زمین پر پڑا کراہ رہا تھا۔وانیا کی نظر اپنے ساتھ کھڑے راگا پر پڑی۔
اس نے آج تک راگا کو اتنے غصے میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔اس وقت وہ غصے سے اپنی مٹھیاں بھینچتا لال ہوتی انگارہ آنکھوں سے کال کو دیکھ رہا تھا۔رگیں بہت شدت سے تنی ہوئی تھیں ۔
"تیری ہمت کیسے ہوئی کال اسے ہاتھ بھی لگانے کی۔۔۔۔؟"
راگا غصے سے دہاڑتے ہوئے آگے بڑھا اور کال کو گریبان سے پکڑ کر اپنے مقابل کیا۔
"راگا آرام سے اسے بولنے کا موقع۔۔۔"
پیچھے کھڑے ویرہ نے راگا کو کچھ کہنا چاہا لیکن راگا سن کہاں رہا تھا وہ تو بس کال کو بری طرح سے مارنے میں مصروف تھا۔ جیسے کہ اسکی جان ہی لے لے گا۔ ویرہ نے آگے ہو کر راگا کو روکنا چاہا لیکن تبھی اس کی نظر اپنی بیوی مرجان پر پڑی جو ایک آدمی کی گرفت میں مچل رہی تھی۔
"ما هغه جهيل ته نږدې وموندله هغې له دې نجلۍ سره مرسته وکړه چې وتښتي (میں نے اسے جھیل کے قریب پایا۔یہ اس لڑکی بھاگنے میں مدد کر رہی تھی۔)"
اس آدمی کے بات سن کر ویرہ کی رگیں بھی غصے سے تن گئی تھیں۔اسی غصے کے عالم میں وہ آگے بڑھا اور مرجان کا بازو پکڑ کر اسے اپنے قریب کیا جو اب سوکھے پتے کی طرح کانپ رہی تھی۔
"زه بخښنه۔۔۔۔"
مرجان نے کچھ کہنا چاہا لیکن ویرہ کی گھوری پر خاموش ہو گئی ویرہ راگا کی جانب مڑا جو اب کال کو چھوڑ کر وانیا کا ہاتھ تھام کر اسے وہاں سے لے جانے لگا۔
"تم اس کو نہیں لے کر جا سکتے راگا۔۔۔"
کال کی بات پر راگا غصے سے مڑا اور کال کو دہکتی سیاہ آنکھوں سے گھورا۔
"کیا کہا تو نے؟"
راگا کا غصہ اس کمرے میں موجود ہر آدمی محسوس کر سکتا تھا لیکن کال بس اپنے گال سے بہتا خون صاف کر کے کھڑا ہو گیا۔
"تم اسے یہاں سے نہیں لے جا سکتے راگا یہ اب میری ہے چاہے تو ویرہ سے پوچھ لو۔۔۔۔"
راگا فوراً ویرہ کی جانب مڑا جو خود حیرت سے کال کی جانب دیکھ رہا تھا۔
"تمہیں یاد نہیں راگا ہمارے قبیلے کا اصول ہے جب کوئی قیدی عورت ایک آدمی کو چھوڑ کر دوسرے کے پاس آئے تو وہ اس کی ہو جاتی ہے اور تمہاری عورت میرے پاس خود چل کر آئی ہے۔۔۔۔اب یہ میری ہوئی راگا تم اسے نہیں لے جا سکتے۔۔۔۔"
ویرہ کی بات سن کر راگا وانیا کو چھوڑ کر کال کی جانب بڑھا۔
"میں نہیں مانتا اس اصول کو۔۔۔"
کال کے ہونٹوں کو ایک طنزیہ مسکان نے چھوا۔
"مانو یا نہ مانو اصول تو یہی ہے اور سردار ہونے کے ناطے تمہیں اس اصول پر چلنا ہی ہوگا۔"
کال کی بات سن کر راگا اپنی مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا اس نے بے بسی سے ویرہ کو دیکھا جس نے ہاں میں سر ہلایا ۔
"کال صحیح کہہ رہا ہے راگا اب اس لڑکی پر تمہارا کوئی حق نہیں۔۔۔"
ویرہ کی بات پر راگا نے ایک نظر اپنے بازو سے چپکی وانیہ کو دیکھا ایسا لگ رہا تھا کہ اپنی حفاظت کے لیے اس میں ہی چھپ جائے گی۔اسے دیکھتے ہوئے راگا نے کچھ دیر سوچا پھر وانیا کو مسکرا کر دیکھتا ہوا بولا۔
"اگر بات حق کی ہی ہے تو پھر اس پر ایسا حق حاصل کروں گا کہ تم تو کیا دنیا کی کوئی بھی طاقت اسے مجھ سے دور کر میرے حق پر سوال نہیں اٹھا سکے گی۔۔۔۔"
راگا کی بات پر وانیہ نے بھی اپنی پرخوف نگاہوں سے اس کو دیکھا تھا جیسے کہ اس سے حفاظت کی التجا کر رہی ہو۔
"مولوی کو بلاؤ ویرہ میں ابھی اسی وقت اس سے نکاح کروں گا۔"
راگا کی بات پر سب کو سانپ سونگھ گیا جبکہ وانیا تو حیرت سے اس شخص کو دیکھ رہی تھی۔اس کی زندگی کونسا نیا موڑ لینے والی تھی۔
"راگا یہ تم کیا۔۔۔۔؟"
"جیسا کہا ہے ویسا کرو ویرہ"
راگا نے سختی سے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا اور پھر وانیا کو دیکھا جو انکار میں سر ہلا رہی تھی۔
"ممم۔۔۔۔۔میں آپ سے نکاح نہیں کروں گی۔۔۔"
وانیہ کے بات پر جہاں راگا کے ماتھے پر بل آئے تھے وہیں کال کے ہونٹوں کو ایک دلفریب مسکراہٹ نے چھوا۔
"تم سے پوچھا نہیں تمہیں بتایا ہے یہ نکاح ہوگا اور اسی وقت ہو گا۔۔۔۔"
راگا نے اسے سیاہ آنکھوں سے گھورتے ہوئے کہا لیکن تمام خوف کو برطرف کرتے ہوئے وانیہ نے انکار میں سر ہلایا۔
"نہیں کروں گی میں آپ سے نکاح۔۔۔۔انکار کر دوں گی میں۔۔۔۔"
اس نے بے بسی سے روتے ہوئے کہا اور اس کی بات پر راگا کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچا اسی لیے اس نے وانیہ کا بازو سختی سے دبوچا۔
"نہیں کرو گی تم یہ نکاح؟"
راگا کی آنکھوں میں بہت زیادہ غصہ اور آگ تھی جس سے وانیہ کو خوف آ رہا تھا پھر بھی بہت ہمت کرکے اس نے روتے ہوئے انکار میں سر ہلایا۔
اچانک ہی راگا نے اسے بازو سے کھینچ کر کال کی جانب دھکیلا تو اسکا نازک وجود لڑکھڑاتے ہوئے کال کی آغوش میں چلا گیا۔
"تمہاری ہوئی یہ جو مرضی کرو اس کے ساتھ۔۔۔۔"
راگا اتنا کہہ کر وہاں سے جانے کے لیے مڑا اور اس کے ساتھ ہی باقی سب بھی باہر جانے کے لیے مڑے۔جبکہ راگا کو وہاں سے جاتا دیکھ وانیہ کو لگا کہ اسکا دل بند ہو جائے گا۔
"نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔"
وانیہ سسک کر بھاگتے ہوئے آگے بڑھی اور راگا کے بازو سے چپک گئی۔اسکی اس حرکت پر راگا کے چلتے قدم رک گئے۔
"مم۔۔۔۔مجھے چھوڑ کر مت جائیں ۔۔۔۔مم۔۔۔۔مجھے اس کے پاس نہیں رہنا۔۔۔۔"
وانیہ نے روتے ہوئے کہا تو راگا نے اسے بازوں سے دبوچ کر اپنے مقابل کیا۔
"تمہارے پاس اس وقت دو ہی راستے ہیں یا تو مجھے قبول کر کے ہمیشہ کے لیے میری حفاظت میں آ جاؤ یا کال کے پاس چلی جاؤ فیصلہ تمہارا ہے۔۔۔۔"
راگا کی بات پر وانیہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی ۔وہ اس وقت بہت زیادہ بے بس محسوس کر رہی تھی۔بھلا وہ کیسے اپنے باپ کی اجازت کے بغیر اپنے جسم و جاں کا مالک کسی کو بنا دیتی۔۔۔؟لیکن اپنے مان کی حفاظت بھی تو اسی کا فرض تھا نا۔۔۔۔
وہ جانتی تھی کہ وہ ہار چکی ہے اسی لیے سر جھکا کر آنسو بہانے لگی۔
"مم۔۔۔۔مجھے یہ نکاح منظور ہے۔۔۔۔"
اس نے آہستہ سے کہا اور اسکی بات سن کر راگا کے ہونٹ دلفریب مسکراہٹ سے سج گئے۔ایک فاتح مسکان کال کی جانب اچھالتے ہوئے وہ ویرہ کی جانب مڑا۔
"میں ابھی اور اسی وقت اس سے نکاح کروں گا۔۔۔"
ویرہ نے گہرا سانس لیا اور اپنی گرفت میں موجود مرجان کو دیکھا جو سر جھکائے آنسو بہا رہی تھی۔
"جو مرضی کرو میری بلا سے اس وقت مجھے کسی کو اسکی بے وقوفی کا مزہ چکھانا ہے۔۔۔۔"
ویرہ نے مرجان کو دیکھ کر دانت پیستے ہوئے کہا اور اسے وہاں سے لے گیا۔وانیہ کو اس چھوٹی سی لڑکی پر بہت رحم آیا جو اسکی وجہ سے مصیبت میں پھنس چکی تھی۔
اچانک ہی اسے اپنے کان کی پاس کسی کی سانسوں کی گرمائش محسوس ہوئی تو وانیہ کا سانس حلق میں ہی اٹک گیا۔
"مبارک ہو میری افغان جلیبی میرے ماں باپ کا بعد آج تم وہ خوش نصیب ہو جسکو راگا کا اصلی نام پتہ چلے گا ۔۔۔"
راگا نے اسکے کان میں سرگوشی کی اور پھر اپنے آدمیوں کو ہدایت دیتا وانیہ کو وہاں سے لے گیا کچھ دیر میں ویرہ کی ماں اور بہن نے وانیہ کو سرخ پشتون فراک اور بھاری ماتھا پٹی سے سجا کر دلہن بنایا۔
راگا کے چھوٹے سے گھر کے دوسرے کمرے میں اسے لایا گیا جہاں بس ایک مولوی اور کچھ گواہ موجود تھے جو راگا کے بہت قریبی تھے اور ان پر بھی اپنی اصلیت ظاہر کرنا راگا کی مجبوری تھی۔ وانیا مردہ حالت میں راگا کے سامنے بیٹھا دی گئی تھی۔
"وانیا خان ولد وجدان خان آپکا نکاح عماد بنگش ولد شہریار بنگش حق مہر پانچ لاکھ روپے سکہ رائج الوقت ہونا طے پایا ہے کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے؟"
مولوی صاحب کے سوال پر وانیا نے اپنی نم آنکھیں اٹھا کر سامنے بیٹھے شخص کو دیکھا جو نہ جانے کتنے لوگوں کا قاتل تھا۔یہ اسکی قسمت کا کھیل ہی تھا کہ ایک فوجی کی بیٹی ہونے کے باوجود وہ آج ایک دہشتگرد کی بیوی بننے جا رہی تھی لیکن وہ کیا کرتی وہ مجبور تھی۔۔۔۔۔بہت بہت مجبور۔۔۔۔
"قبول ہے۔
قبول ہے
قبول ہے۔۔"
وانیہ نے ایک ساتھ کہا اور بہت سے آنسو اسکی آنکھوں سے بہہ نکلنے جبکہ اپنی جیت پر مقابل کے ہونٹ مسکرائے تھے۔روشنی کی شہزادی آج اندھیرے کی ملکہ بن چکی تھی۔
                     ❤️❤️❤️❤️
انس نے چلتی بس سے باہر دیکھا جہاں گہری رات کے سائے نمودار ہو چکے تھے پھر کھڑکی کے ساتھ سر رکھ کر سوئی ہانیہ کو دیکھا۔بس کو لگنے والے جھٹکوں کی وجہ سے کئی بار ہانیہ کا سر اس کھڑکی سے ٹکرا چکا تھا اور اب انس کی بس ہو چکی تھی اسی لئے اپنا ہاتھ بڑھا کر کھڑکی اور اس کے سر کے درمیان رکھ دیا۔کچھ دیر بعد گاڑی رکی تو انس نے اپنا ہاتھ ہانیہ کے کندھے پر رکھ کر اسے جگایا۔
"ہانیہ اٹھو ہمیں اترنا ہے اب؟"
ہانیہ نے فورا اپنی آنکھیں کھولیں اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔
"پہنچ گئے کیا؟"
"نہیں محترمہ ابھی تو آدھا راستہ ہوا ہے ابھی یہاں سے کھانا کھائیں گے پھر تھوڑا ریسٹ کر کے دوسری بس سے آگے چلیں گے۔"
ہانیہ نے فوراً انکار میں سر ہلایا۔
"نہیں ہم ریسٹ نہیں کریں گے یہاں سے اگلی بس پکڑ کر فورا حیدرآباد جائیں گے۔۔۔"
ہانیہ نے جیسے اسے حکم سنایا اور اپنا بیگ پکڑ کر کندھوں پر پہننے لگی۔
"تو پھر حیدرآباد ہم نہیں محترمہ ہمارے ڈھانچے پہنچیں گے۔۔۔"
انس کے طنز پر ہانیہ اپنی مٹھیاں بھینچتی بس سے اتری۔
"غلطی ہو گئی اسکی مدد لینی ہی نہیں چاہیے تھی اس سے اچھا تھا اکیلے آ جاتی۔۔۔"
ہانیہ نے دانت پیس کر سرگوشی کی جسے پیچھے آتا انس سن کر مسکرایا۔
"پٹاخہ گڈی۔۔۔"
انس نے زیر لب کہا اور اسے لے کر ایک چھوٹے سے ہوٹل آیا جہاں بہت سے ڈرائیور اور لوگ کھانا کھانے بیٹھے تھے۔
"فائیو سٹار ہوٹلوں کے کھانے آپ نے بہت کھائے ہوں گے شہزادی صاحبہ آج زرا اس پنجابیوں کے سیون سٹار ہوٹل کا کھانا کھا کر دیکھیں فین ہو جائیں گی۔۔۔"
انس نے شرارت سے کہا لیکن ہانیہ بس وہاں اضطراب سے بیٹھی اپنے ہاتھ مسل رہی تھی۔انس نے اپنا ہاتھ ہانیہ کے ہاتھ پر رکھا۔
"پتہ ہے وانیا اس دن یونی نہیں جانا چاہتی تھی زبردستی بھیجا میں نے اسے لیکن کاش میں نے اسے نہ بھیجا ہوتا۔۔۔تو وہ اتنی بڑی مشکل میں نہ ہوتی۔۔۔"
اتنا کہہ کر ہانیہ کی آنکھیں نم ہو گئیں۔انس بس گہرا سانس لے کر رہ گیا۔
"کاش میں وہاں ہوتی انس تو انہیں اسے لے کر نہیں جانے دیتی۔۔۔۔ہم دو جسم ایک جان ہیں انس اگر اسے کچھ ہوگیا تو۔۔۔۔تو میں بھی زندہ نہیں رہوں گی۔۔۔۔"
ہانیہ اس وقت بے بسی کی انتہا پر تھی۔
"فکر مت کرو ہانیہ وعدہ کرتا ہوں تب تک تمہارے ساتھ ہوں جب تک وانیا کو ڈھونڈ نہیں لیتے۔"
ہانیہ نم آنکھوں کے ساتھ مسکرائی۔
"شکریہ۔۔۔میں آپ کے ہر احسان کا بدلہ ضرور اتار دوں گی۔۔۔"
اتنا کہہ کر اس نے اپنے ہاتھ واپس کھینچ لیے۔
"میں تم پر کوئی احسان نہیں کر رہا ہانیہ۔۔۔"
اس تلخ مسکراہٹ نے ہانیہ کے ہونٹوں کو چھوا۔
"آپ کے لیے یہ جو بھی ہو میرے لئے بس ایک احسان ہے۔۔۔۔اس سے بڑھ کر اسکی میری زندگی میں کوئی حیثیت نہیں۔۔۔۔"
اس کی بات پر انس نے آنکھیں موند کر گہرا سانس لیا۔
"ہانیہ اس وقت تم بہت چھوٹی تھی اور۔۔۔۔"
"اور وہ میرا بچپنا تھا انس لیکن آپ فکر مت کریں اب میں بڑی ہو چکی ہوں اب کسی کے بھی چلے جانے سے ہانیہ خان کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔"
ہانیہ نے مسکرا کر کہا لیکن وہ مسکراہٹ اسکے دل تک نہیں پہنچی تھی۔
"اس بیوقوفی کو تو میں تب ہی بھول گئی تھی بلکہ آپ کو بھی بھول جانا چاہیے تھا۔۔۔چلیں کوئی بات نہیں اب بھول جاتے ہیں اور بس دو مسافروں کی طرح اس سفر کا حصہ بنتے ہیں جس میں ہمارے راستے تو ایک ہیں لیکن منزل جدا ہے۔۔۔"
ہانیہ نے مسکرا کر کہا جبکہ انس حیرت سے اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا جو سچ میں اب بڑی ہو چکی تھی تبھی تو ایسی باتیں کر رہی تھی۔
"پارٹنرز؟"
ہانیہ نے ہاتھ آگے بڑھا کر پوچھا جسے انس کچھ دیر تک دیکھتا رہا پھر اسکا نازک ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام کر مسکرایا۔
"پارٹنرز۔۔۔"
                      ❤️❤️❤️❤️
مولوی اور باقی آدمیوں کے جانے کے بعد راگا دوسرے کمرے میں داخل ہوا تو اسکی نظر وانیا پر پڑی جو پہلے دن والی جگہ پر گھٹنوں میں سر دیے رو رہی تھی۔
لیکن آج بہت کچھ بدل چکا تھا بے ساختہ طور پر راگا کے قدم وانیا کی جانب اٹھے اور اسکے پاس بیٹھتے ہوئے راگا نے اسکا چہرہ ٹھوڈی سے اٹھا کر اونچا کیا۔
"اتنا روئے گا نا میری افغان جلیبی تو یہ وادی تمہارے آنسوؤں سے ہی بہہ جائے گا۔۔۔"
راگا نے شرارت سے اسکے آنسو پونچھتے ہوئے کہا جبکہ اسکے اس عمل سے وانیہ کے رونے میں مزید روانی آئی تھی۔
"مم۔۔۔۔مجھے یہاں نہیں رہنا۔۔۔مجھے اپنے گھر جانا ہے۔۔۔"
وانیا نے روتے ہوئے کہا تو راگا کے لب مسکرائے۔
"اب تو کہیں بھی چلی جاؤ تمہارا ہر راستہ صرف مجھ پر آ کر ختم ہو گا کیونکہ اب میں ہی تمہاری منزل ہوں۔۔۔۔۔"
راگا نے ایسا کہتے اسکا گال نرمی سے سہلایا۔اسکی آنکھوں میں ایک انوکھی تپش محسوس کر کے وانیا گھبرائی تھی۔
"مم۔۔۔۔مجھے سونا ہے۔۔۔"
وانیا کے نظریں جھکا کر کہنے پر راگا کو اس پر ٹوٹ کر پیار آیا تھا اسی لیے تو اسے کھینچ کر اپنی باہوں میں بھرا۔
"اتنی آسانی سے کہاں راگا کی افغان جلیبی ابھی تو اس رشتے کے تقاضے ادا کرنے ہیں تمہیں۔۔۔۔"
راگا کی بات پر وانیا کا سانس اسکے حلق میں اٹک گیا اور وہ اسکی گرفت میں سٹپٹانے لگی۔
"نہیں چھوڑیں مجھے۔۔۔۔"
وانیا فوراً اس سے دور جانے کی کوشش کرنے لگی لیکن راگا نے اسے اتنا قریب کر لیا کہ دونوں کے درمیان ایک انچ کا فیصلہ باقی رہ گیا۔
"اب ملکیت بن گئی ہو تو اپنی افغان جلیبی کو چکھے بغیر کیسے چھوڑوں؟"
اس سے پہلے کہ وانیا اسکی بات کا مطلب سمجھ پاتی راگا بہت نرمی سے اس پر جھکا اور اسکی سانسوں پر دسترس حاصل کر لی۔
وانیا اسکی پناہوں میں کانپ کر رہ گئی شدید مزاحمت کرتے اس نے اپنے ہاتھ راگا کے سینے پر رکھ کر اسے خود سے دور دھکیلنا چاہا۔
اسکی اس مزاحمت پر راگا کا عمل مزید شدت اختیار کر گیا اور وانیہ کی جان مشکل میں آئی۔
"تم تو میری سوچ سے زیادہ میٹھی نکلی افغان جلیبی اب خود کو بچا کر رکھنا میٹھی چیزیں بہت پسند ہیں تمہارے شوہر کو۔۔۔۔"
راگا نے اسکے ہونٹوں سے ہٹتے ہوئے اسکے کان کے قریب سرگوشی کی تو وانیا نے ایک جھرجھری لی اور اس سے دور ہونا چاہا لیکن اب راگا احساس ملکیت سے مدہوش ہوتا اسکی نازک گردن پر جھکا۔
"عماد۔۔۔۔"
راگا کی مونچھوں کی چبھن محسوس کر وانیہ کی گھبرائی سی آواز نکلی تو اسکے ہونٹوں سے اپنا نام سن کر راگا کے لب مسکرا دیے۔
"جاؤ سو جاؤ عماد کی جان ورنہ آج وہ کر گزروں گا جو تم نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہو گا۔۔۔۔۔"
راگا نے اسکے کان میں جان لیوا سرگوشی کر اسے چھوڑ دیا تو وانیہ بہت تیزی سے دھڑکتے دل کے ساتھ اٹھی اور بیڈ پر لیٹ کر فوراً کمبل سے خود کو چھپا لیا۔
"ہائے لخت جگر تیری ہر ادا پر قربان تیرا راگا۔۔۔۔"
راگا نے اس نازک وجود کو دیکھ کر کہا پھر گہرا سانس لے کر اپنے وجود کی تپش کو کم کرنے کے لیے سردی میں باہر آ گیا۔
                      ❤️❤️❤️❤️
وہ رات کے اندھیرے میں چھپتا چھپاتا اس گھر میں داخل ہوا تھا۔ویسے بھی وہ گھر ڈیفینس ایریا میں تھا اور وہاں کی سیکیورٹی کو توڑ کر گھر میں گھسنا آسان نہیں تھا۔
لیکن ہو صرف اتنا جانتا تھا کہ کسی بھی حال میں اسے جنرل شہیر کی جان لے کر سلطان کا دیا کام پورا کرنا تھا۔
بہت کوشش کے بعد آخر کار اسے جنرل شہیر کا کمرہ ملا جہاں وہ گہری نیند سو رہا تھا۔تھوڑی دیر تک وہ اس ضعیف سے شفیق چہرے کو دیکھتا رہا پھر اپنی سائلینسر لگی پسٹل اٹھا کر جنرل شہیر پر تان دی۔
لیکن اس سے پہلے کہ وہ گولی چلاتا جنرل شہیر کا ہاتھ کمبل میں سے نکلا اور انہوں نے اسکا ہاتھ سختی سے پکڑ کر اس سے بندوق چھین لی۔
"اگر اتنا آسان ہوتا نا میری جان لینا تو میں کب کا مر چکا ہوتا۔"
جنرل شہیر نے مسکرا کر کہا اور تبھی بہت سے سپاہی بندوقیں تھام کر اس کمرے میں داخل ہوئے۔
اپنے آپ کو اس طرح سے مصیبت میں مبتلا دیکھ وہ شخص پریشان ہوا تھا۔پھر جنرل شہیر نے اسکے چہرے سے نقاب ہٹایا۔
"انٹرسٹنگ تم تو کسی کریمنل ریکارڈ میں بھی شامل نہیں ہو گے لیکن آج یہ مکروہ چہرہ آ گیا سامنے۔۔۔۔۔"
جنرل شہیر نے اسے سپاہیوں کی جانب پھینکا جو اسے اپنی گرفت میں لے چکے تھے۔
"جیل میں ڈالو اسے اب بہت جلد یہ چیخ چیخ کر اپنے ساتھیوں کا نام بتائے گا۔۔۔۔"
جنرل شہیر کی بات پر سپاہی اس شخص کو گرفت میں لے کر وہاں سے لے جانے لگے جبکہ وہ یہ سوچ رہا تھا کہ اگر سلطان کو پتہ لگا کہ وہ پکڑا گیا ہے تو اسکے آزاد ہونے پر وہ اسکی زندگی جہنم بنا دے گا اور اگر آرمی اسے لے جاتی ہے تو سلطان کا سچ جاننے کے لیے وہ بھی اسے بہت ازیت دیں گے اور اس ازیت سے بہتر اسے موت لگی تھی۔
اسی لیے ہاتھ چھڑا کر اس نے جلدی سے اپنی انگوٹھی پر لگا خطرناک زہر چاٹ لیا۔جنرل شہیر اور باقی سپاہی اسکی حرکت پر حیران ہوئے تھے۔
"کبھی نہیں جان پاؤ گے جنرل اس ملک میں رہتے ہوئے بھی یہاں کے دشمن نہیں پکڑ پاؤ گے تم ۔۔۔۔"
اس آدمی نے ہنستے ہوئے کہا اور پھر فوجیوں کی گرفت میں تڑپنے لگا۔اچانک ہی اسکے منہ اور ناک سے بے تحاشا خون نکلا تھا۔بس چند منٹوں میں ہی وہ مردود خود کو ختم کر چکا تھا۔

   0
0 Comments